:انسان کے تخلیقی مرحلے پر غور کریں جب وہ ایک بت کی صورت میں بے حس و حرکت ایک عام چیز کی طرح سامنے پڑا تھا۔ کیونکہ فرشتوں کا یہ سارا کام صرف ایک عمل پر مبنی تھا جو انہیں خدا کی طرف سے کرنے کا حکم دیا گیاتھا۔فرشتوں کا یہ سارا کام ابھی تک کسی کام کا نہیں تھا،کیونکہ اس میں ان کی نیت اور ارادہ شامل نہیں تھا۔نیت اور ارادہ تو اللہ تعالی کے پاس تھا۔جب اللہ تعالی نے اس بت میں روح پھونک کر اپنی نیت اور ارادے کی تکمیل فرمائ تب فرشتوں کا کیا ہوا عمل کسی کام کا ہوا۔
معزز قارئین کوئ بھی کام جو نیت کے بغیر کیا جاۓ گا وہ لاوارث بے حس اور بے جان ہوتا ہے،لیکن جب کسی بھی عمل یا کام کو نیت کی وراثت ملتی ہے تب وہ عمل ایک حساس اور جاندار بن جاتا ہے۔نیت کی ریسیپی دو قسم کےمیٹیریلز سے تین قسم کی تیار کی جاتی ہے۔وہ دو میٹیریلز ہیں اچھائ اور برائ کے۔ نیت کی پہلی ریسیپی کی تیاری اچھائ حسب ذائقہ سے تیار ہوتی ہے۔دوسری ریسیپی برائ حسب ذائقہ سے تیار ہوتی ہے اور تیسری ریسیپی دونوں میٹیریلز کو مکس کر کے تیار کی جاتی ہے۔
عمل کی ایک ہی قسم ہے اور اس کا نام ہے کرنا۔اور اگر عمل کے ساتھ نیت. کو شامل کر لیا جاۓ تو اس کی کئی اقسام بن جاتی ہیں۔کس قسم کا عمل آپ کرنا چاہتے ہیں اسی قسم کی نیت سے اس میں جان ڈالنا پڑے گی۔انسان کے ابتدائ ڈھانچے میں نیت کی تمام اقسام ڈال دی گئیں۔نبی علیہ السلام اور قرآن کے ذریعے سے ان میں سے صرف ایک اچھی نیت کو اپنے دل اور دماغ میں سجا کر رکھنے حکم دیا گیاہے ،لیکن انسان سبھی پر کام کیوں کر رہا ہے
لمحہ فکریہ کس کے لۓ ہے، انسانوں کے لۓ یا جانوروں کے لۓ یا مٹی کے لۓ۔اگر مٹی کے لۓ ہےتو پھر وہ تو بے زبان ہو کرفیصلہ کر چکی ہے ہمارے وجود کو مٹانے کا اور اگر انسان کے لۓ ہے تو اس نے کیا فیصلہ کیا ہے یا پھر کسی شش و پنج میں ہے